Post Top Ad
Post Top Ad
منگل، 14 دسمبر، 2021
La ilaj Bimariyon Ka Wazefa
جمعہ، 27 نومبر، 2020
Quran Ka Moajza , Molana Tariq Jameel karguzari , Stories
قرآن پاک کا عجیب معجزه
Molana Tariq Jameel Stories
گوجرانوالہ کے تبلیغی مرکز کے ایک بیان میں ایک عالم نے یہ واقعہ بتایا کہ
میں امریکہ میں جماعت میں گیا ہوا تھا تو کراچی کے ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی وہ
مجھے ایک یونیورسٹی میں لے گیا جو بہت بڑی ہے۔ وہاں ایک سیمینار تھا عیسائیت کا ان
کا ایک بڑا پروفیسر عیسائیت پر تقریر کر رہا تھا بڑے بڑے پی ایچ ڈی ڈاکٹر اس میں مدعو
تھے یہ لڑکا بھی پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھا ان عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا تین ہیں ایک الله
ایک عیسیٰ اور ایک جبرائیل ۔ یہ ان تینوں کو خدا مانتے ہیں۔
Molana Tariq Jameel Stories
انہوں نے سوال کیا کہ کتنے خدا ہیں؟
تو یہ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اللہ ایک ہے تین نہیں ہو سکتے۔
پوچھا: آپ کی دلیل؟
کہا: ہمارا قرآن کہتا ہے۔
پوچھا: قرآن کے آسمانی کتاب ہونے کی دلیل؟
کہا: آپ کا یہ سپر کپیوٹر ہے اس قرآن کو ڈالو اپنے کمپیوٹر میں یہ سارا قرآن ۱۹ کے
ہندسے کے ساتھ سفر کرتا ہے۔
کہا: میں بھی قرآن دے رہا ہوں اس کو ڈالو کپیوٹر میں اور اس کو گھماؤ ساری آیات کو
کہیں بھی اگر ۱۹ کا ہندسہ چھوٹ گیا تو پھر یہ قرآن وہ نہیں جو ہمارا نبی
لایا تھا یا تو اس میں زیادتی ہو چکی ہے یا اس میں کمی ہو چکی ہے یا پھر تبدیلی ہو
چکی ہے یا اس میں آگے کا پیچھے کر دیا ہے یا پیچھے کا آگے کر دیا ہے اور اگر ۱۹
ہر جگہ چمکتا چلا جائے تو پھر یہ بات طے شدہ ہے کہ اتنی بڑی کتاب کو کوئی
انسانی دماغ ایک ہندسے پر کبھی نہیں گھما سکتا اور اب تم اپنی بائبل بھی ڈالو اور اس کو بھی دیکھو وہ ہر جگہ ٹوٹے گی ہمارا قرآن ڈ الو کہیں نہیں ٹوٹے گا
انہوں نے قرآن لے لیا اور ایک ہفتے کی مہلت مانگی پھر انہوں نے ایک
هفته قرآن کو سپر کمپیوٹر میں گھمایا ایک ہفتے بعد جب دوبارہ سیمینار ہوا تو انہوں نے کہ
بھئی ہم نے یہ چیک کیا ہے ہماری بائیل ٹوٹ گئی تمہارا قرآن کہیں نہیں ٹوٹا ہم مان گئے
کہ یہ کتاب ناقابل تبدیل ہے اسے کوئی تبدیل نہیں کر سکا نہ گھٹا سکا نہ کوئی بڑھا سکا نہ
آگے کر سکا نہ پیچھے کر سکا ستر آدی بمع اس عیسائیت کا پرچار کرنے والے پروفیسرز کے
مسلمان ہو گئے۔
Molana Tariq Jameel Stories
پیر، 2 نومبر، 2020
Molana Tariq Jameel bayan 2020
چوراللہ والا بن گیا
نارووال میں ایک چور رہتا تھا۔ وہ میواتی تھا. ایک اللہ والے وہاں جماعت میں گئے۔ اس
چور کی منت سماجت کر کے اس کو تین دن کے لیے تیار کیا۔ وہ تین دن کے لیے تیار ہوگیا۔ stories لیکن
شیطان تو بڑا ظالم ہے اس نے سوچا کہ اگر یہ تبلیغ میں لگ گیا اور اللہ والا بن گیا تو میری تو برسوں
کی محنت بیکار ہو جائے گا۔ چنانچہ شیطان نے اسے ورغلانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب
بھی ہوگیا، stories in urdu جب یہ اسی چور کو لے کر اللہ کے راستے میں گئے تو جماعت کی تشکیل قریب ہی ایک
مسجد میں ہوئی۔ پتہ چلا کہ چور واپس چلا گیا ہے۔ خیر اس کو دوبارہ واپس ڈھونڈ کر جماعت کے
پاس لائے اس طرح اس نے تین دن لگانے پھر وہ جماعت میں وقت لگاتا تھا اس طرح
اس کے دل میں ہدایت کی شمع روشن ہوتی چلی گئی.stories اس کے یہ ثمرات ہوئے کہ اس چور نے لوگوں
سے معافی بھی مانگ لی، جس کا مال واپس کرسکتا تھا اس کا مال بھی واپس کر دیا پھر اس چور کواللہ
نے کئی لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ islamic stories حتی کہ ایک وقت ایسا آیا کہ جب اس کا انتقال ہوا تو وہ اس
وقت تہجد کی نماز پڑھ رہا تھا اور سجدہ کی حالت میں تھا (سبحان اللہ)
منگل، 27 اکتوبر، 2020
اذان سن کر گورا مسلمان ہو گیا
اذان سن کر گورا مسلمان ہوگیا
molana tariq jameel status
بدھ، 21 اکتوبر، 2020
رائیونڈ کا ایک سبق اموز واقعہ Molana Tariq Jameel
Molana Tariq Jameel karguzari
ایک کویتی نوجوان آیا، امریکہ میں پڑھتا تھا، وہاں سے سیدھا یہاں آ گیا، وقت
لگانے ۔ مجھ سے کہنے لگا: اگر میرے ابا کو پتہ چل گیا کہ میں یہاں پہنچ گیا ہوں تو وہ یہاں
پہنچ جائے گا، مجھے لے جانے کے لیے تو تم دعا کرو کہ انہیں پتہ نہ چلے۔ وہ اللہ کی شان!
اس کے ابا کو چل گیا پتہ اور وہ یہاں پہنچ گیا۔ پہلے گیا اسلام آباد وہاں سے کویت ایمبیسی سے
آدمی لیا اور رائیونڈ پہنچ گیا اور آ کے چڑھائی کر دی کہ میرے بیٹے کو اغوا کر لیا ہے تم لوگ
راہب ہو، درویش ہوں، میرے بیٹے کو درویش بنانا چاہتے ہو، میں نے امریکہ بھیجا ہے
پڑھائی کیلئے تم نے یہاں کیا کردیا اور عین اس وقت ہم نے اس کی جماعت بنائی اور وہ کوئٹہ کیلئے نکل رہا تھا اور میں نے کہا بھاگ جا بھاگ چھپ جا اگر تیرا ابا ہوگیا راضی تو تجھے چلائیں گے اور اگر وہ ناراض ہوگیا تو تجھے واپس اپنے باپ کے ساتھ جانا پڑےگا اس طرح باپ کو ناراض کر کے جانا ٹھیک نہیں اس کو ہم نے ایک طرف چھپادیا۔
جب وہ اپنا غصہ نکال چکا تو ہم نے کہا آپ مرکز تو دیکھ لیں ، آپ اتنی دور سے
آئے ہیں، اب اس کو لے کر ساری مسجد با ہر مہمان، اندر مہمان ، عرب مہمان مسجد میں
تعلیم ، ذ کر کوئی آدی بغیر داڑھی کے کوئی نہیں ، کوئی آدمی ننگے سر کوئی نہیں اور مسجد میں ہر
طرف ذکر، تلاوت، دعوت کی فضا، پچھے جہاں مطبخ روٹی پکتی ہے وہاں بھی وہ پٹھان
سبزی بھی کاٹ رہا ہے ”سبحان اللہ ، الحمد للہ، اللہ اکبر“ وہ گاجر کاٹ رہا ہے تو
سبحان الله کا نعرہ بھی لگا رہا ہے کہا یہ چکر ہی کوئی اور ہے بھائی، وہ سارا مرکز دیکھ کر ایسے بیٹھ گیا
اور کہنے لگا، اگر میرابیٹا یہاں آیا ہے تو ضائع نہیں ہوا، میں مطمئن ہوں ، میری طرف سے اجازت ہے وقت لگالے
پھر ہم نے اس کے بیٹے کو بلایا، بھائی مبارک ہو کام بن گیا، پھر دونوں پیو پتر کومال
دیا۔ تو یہ ایک ایسی فضا ہے جہاں دل جا کے بدلتا ہے ، کچھ وقت کے لیے وہاں تشریف
لے جائیں تو اگر ہر مہینے آپ تین دن لگاتے رہیں تو ان شاء الله العزیز زندگی کو ایک رخ
مل جائے گا۔
جمعہ، 5 جون، 2020
پیر، 18 مئی، 2020
دانائی کے ساتھ فیصلہ
{ دانائی کے ساتھ فیصلے }
ایک بادشاہ محل کی چھت پر ٹہلنے چلا گیا۔ ٹہلتے ٹہلتے اسکی نظر محل کے نزدیک گھر کی چھت پر پڑی جس پر ایک بہت خوبصورت عورت کپڑے سوکھا رہی تھی۔
بادشاہ نے اپنی ایک باندی کو بلا کر پوچھا: کس کی بیوی ہے یہ؟
باندی نے کہا: بادشاہ سلامت یہ آپ کےغلام فیروز کی بیوی ہے۔
بادشاہ نیچے اترا ، بادشاہ پر اس عورت کے حسن وجمال کا سحر سا چھا گیا تھا۔
اس نے فیروز کو بلایا۔
فیروز حاضر ہوا تو بادشاہ نے کہا : فیروز ہمارا ایک کام ہے۔ ہمارا یہ خط فلاں ملک کے بادشاہ کو دے آو اور اسکا جواب بھی ان سے لے آنا۔
فیروز: اس خط کو لے کر گھر واپس آ گیا خط کو اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیا، سفر کا سامان تیار کیا، رات گھر میں گزاری اور صبح منزل مقصود پر روانہ ہو گیا اس بات سے لاعلم کہ بادشاہ نے اس کے ساتھ کیا چال چلی ہے۔
ادھر فیروز جیسے ہی نظروں سے اوجھل ہوا بادشاہ چپکے سے فیروز کے گھر پہنچا اور آہستہ سے فیروز کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
فیروز کی بیوی نےپوچھا کون ہے؟
بادشاہ نے کہا: میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک۔
تواس نے دروازہ کھولا۔ بادشاہ اندر آ کر بیٹھ گیا۔
فیروز کی بیوی نے حیران ہو کر کہا: آج بادشاہ سلامت یہاں ہمارے غریب خانے میں۔
بادشاہ نے کہا : میں یہاں مہمان بن کر آیا ہوں۔
فیروز کی بیوی نےبادشاہ کا مطلب سمجھ کر کہا: میں اللہ کی پناہ چاہتی ہوں آپکے اس طرح آنے سے جس میں مجھے کوئی خیر نظر نہیں آ رہی۔
بادشاہ نے غصے میں کہا: اے لڑکی کیا کہہ رہی ہو تم ؟ شاید تم نے مجھے پہچانا نہیں میں بادشاہ ہوں تمہارے شوہر کا مالک۔
فیروز کی بیوی نے کہا: بادشاہ سلامت میں جانتی ہوں کہ آپ ہی بادشاہ ہیں لیکن بزرگ کہہ گئے ہیں
شیر کو اگرچہ جتنی بھی تیز بھوک لگی ہو لیکن وہ مردار تو نہیں کھانا شروع کر دیتا
اور کہا: بادشاہ سلامت تم اس کٹورے میں پانی پینے آ گئے ہو جس میں تمہارے کتے نے پانی پیا ہے۔
بادشاہ اس عورت کی باتوں سے بڑا شرمسار ہوا اور اسکو چھوڑ کر واپس چلا گیا لیکن اپنے چپل وہیں پر بھول گیا ۔
یہ سب تو بادشاہ کی طرف سے ہوا۔
اب فیروز کو آدھے راستے میں یاد آیا کہ جو خط بادشاہ نے اسے دیا تھا وہ تو گھر پر ہی چھوڑ آیا ہے اس نے گھوڑے کو تیزی سے واپس موڑا اور اپنے گھر کی طرف لپکا۔ فیروز اپنے گھر پہنچا تو تکیے کے نیچے سے خط نکالتے وقت اسکی نظر پلنگ کے نیچے پڑے بادشاہ کے نعال (چپل) پر پڑی جو وہ جلدی میں بھول گیا تھا۔
فیروز کا سر چکرا کر رہے گیا اور وہ سمجھ گیا کہ بادشاہ نے اس کو سفر پر صرف اس لیئے بیھجا تاکہ وہ اپنا مطلب پورا کر سکے۔ فیروز کسی کو کچھ بتائے بغیر چپ چاپ گھر سے نکلا۔ خط لے کر وہ چل پڑا اور کام ختم کرنے کے بعد بادشاہ کے پاس واپس آیا تو بادشاہ نے انعام کے طور پر اسے سو ١٠٠ دینار دیئے۔ فیروز دینار لے کر بازار گیا اور عورتوں کے استعمال کے قیمتی کپڑے اور کچھ تحائف بھی خرید دئیے۔ گھر پہنچ کر بیوی کو سلام کیا اور کہا چلو تمہارے میکے چلتے ہیں۔
بیوی نے پوچھا: یہ کیا ہے؟
کہا: بادشاہ نے انعام دیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ پہن کر اپنے گھر والوں کو بھی دکھاو۔
بیوی : جیسے آپ چاہئیں، بیوی تیار ہوئی اور اپنے والدین کے گھر اپنے شوہر کے ساتھ روانہ ہوئی داماد اور بیٹی اور انکے لائے لائے گے تحائف کو دیکھ کر وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔
فیروز بیوی کو چھوڑ کر واپس آ گیا اور ایک مہینہ گزرنے کے باوجود نہ بیوی کا پوچھا اور نہ اسکو واپس بلایا۔
پھر کچھ دن بعد اسکے سالے اس سے ملنے آئے اور اس سے پوچھا: فیروز آپ ہمیں ہماری بہن سے غصے اور ناراضگی کی وجہ بتائیں یا پھر ہم آپکو قاضی کے سامنے پیش کریں گئے۔
تو اس نے کہا: اگر تم چاہو تو کر لو لیکن میرے ذمے اسکا ایسا کوئی حق باقی نہیں جو میں نےادا نہ کیا ہو۔
وہ لوگ اپنا کیس قاضی کے پاس لے گئے تو قاضی نے فیروز کو بلایا۔
قاضی اس وقت بادشاہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ لڑکی کے بھائیوں نے کہا: اللّٰه بادشاہ سلامت اور قاضی القضاہ کو قائم و دائم رکھے۔ قاضی صاحب ہم نے ایک سر سبز باغ، درخت پھلوں سے بھرے ہوئے اور ساتھ میں میٹھے پانی کا کنواں اس شخص کے حوالے میں دیا۔ تو اس شخص نے ہمارا باغ اجاڑ دیا سارے پھل کھا لیئے، درخت کاٹ لئیے اور کنویں کو خراب کر کے بند کردیا۔
قاضی فیروز کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: ہاں تو لڑکے تم کیا کہتے ہو اس بارے میں؟
فیروز نے کہا: قاضی صاحب جو باغ مجھے دیا گیا تھا وہ اس سے بہتر حالت میں نے انہیں واپس کیا ہے۔
قاضی نے پوچھا: کیا اس نے باغ تمھارے حوالے ویسی ہی حالت واپس کیا ہے جیسے پہلے تھا؟
انہوں نے کہا : ہاں ویسے ہی حالت میں واپس کیا ہے لیکن ہم اس سے باغ واپس کرنے کی وجہ پوچھنا چاہتے ہیں۔
قاضی: ہاں فیروز تم کیا کہنا چاہتے ہو اس بارے؟
فیروز نے کہا: قاضی صاحب میں باغ کسی بغض یا نفرت کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ اسلیئے چھوڑا کہ ایک دن میں باغ میں آیا تو اس میں، میں نے شیر کے پنجوں کے نشان دیکھے تو مجھے خوف ہوا کہ شیر مجھے کھا جائے گا اسلیئے شیر کے اکرام کی وجہ سے میں نے باغ میں جانا بند کردیا۔
بادشاہ جو ٹیک لگائے یہ سب کچھ سن رہا تھا، اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہا۔ فیروز اپنے باغ کی طرف امن اور مطمئن ہو کر جاو۔ واللہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر تمھارے باغ آیا تھا لیکن وہ وہاں پر نہ تو کوئی اثر چھوڑ سکا ، نہ کوئی پتا توڑ سکا اور نہ ہی کوئی پھل کھا سکا وہ وہاں پر تھوڑی دیر رہا اور مایوس ہو کر لوٹ گیا اور خدا کی قسم میں نے کبھی تمھارے جیسے باغ کے گرد لگے مظبوط دیواریں نہیں دیکھیں۔
تو فیروز اپنے گھر لوٹ آیا اور اپنی بیوی کو بھی واپس لے لیا۔ نہ تو قاضی کو پتہ چلا اور نہ ہی کسی اور کو کہ ماجرا کیا تھا!!!
کیا خوب بہتر ہے اپنے اہل وعیال کے راز چھپانا تا کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے
اپنے گھروں کے بھید کسی پر ظاہر نہ ہونے دو۔۔۔!
شیئر ضرور کریں